Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط9


غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر9

ایئر ہوسٹسس نے کہا جہاز لینڈ کرنے والا ہے۔ ائیرپورٹ پر چہل پہل تھی۔ 
اتنی رونق لوگ آ جا رہے تھے۔ پرندوں کے گیت آسمان پر ہلکے بادل اور فرحت بخش تازگی۔ بہت پیرا موسم تھا کہ ماریہ کھو سی گئی۔
 مس ماریہ کیا یہیں روکنے کا ارادہ ہے امجد مسکرا کے پوچھ رہا تھا ماریہ کو شرمندگی کا احساس ہوا نہیں وہ میں موسم دیکھ رہی تھی۔
 امجد آگے بڑھ گیا۔ اجنبی ملک اجنبی شخص کے ساتھ تھی بھروسہ تھا تو خدا کا آسرا تھا اسے۔
 کچھ غلط نہیں ہوگا اسے امید تھی۔ 
گاڑھی آئ ہوئی تھی وہ دونوں بیٹھے کچھ ٹائم بعد وہ ایک عالی شان بنگلے کے سامنے موجود تھے۔
 یہ ہے میرا گھر اوہ سوری اب تو آپ بھی ساتھ ہیں تو ہمارا گھر۔ 
جی کہ کے ماریہ مسکرائی۔ شکر ہے آپ مسکرانا نہیں بھولیں ورنہ مجہے۔ ۔۔امجد نے پریشانی والا سٹائل اپنایا۔ 
ماریہ نے بے اختیار پوچھا مجہے کیا۔ امجد نے اسکی آنکھوں میں جھانکا اور بولا مجہے ڈر تھا اب ہر وقت گلے لگ کے رونا ہے آپ کے ساتھ۔
 امجد تھوڑا سا آگے ہوا ماریہ نے مسکرا کے کہا ہٹیں اب مجہے گھر بھی نہیں دکھاؤ گے آپ۔ 
ہاں کیوں نہیں تمہارا ہی تو ہے۔ ماریہ نے گھورا مطلب جب تک یہاں ہو۔ 
ماریہ نے گھر دیکھا بہت اچھا تھا ہر چیز سے ذوق اور نفاست نمایاں تھی۔ تھک گئی صوفہ پر بیٹھتے بولی۔ کافی پیتے ہیں۔امجد بولا 
 مجہے چاۓ پینی ہے  ۔اوکے تو پھر بس چاۓ۔ کچھ ٹائم خاموشی کے بعد بولتا ہی۔ 
 اوکے ماریہ اب جھجکنا بند۔
 آپ کو روم دکھا دوں آپ کا ۔پھر مجہے کام سے جانا ہے۔ جی کہ کر ماریہ اٹھ گئی۔ 
اپنا خیال رکھیے گا۔  
ضیاء نے اوپر بات کی تو افسران نے انکار کر دیا یہ کہ کر کہ فیملی نقصان ہر کسی کا ہوتا ہے ۔آپ کے ساتھ ہم کچھ افراد بھیج دیں وہ بھی بیرون صرف ایک عورت کی خاطر ۔
سر وہ مجرم ہے اسنے ایک مجرم کی مدد کی پھر اسکو بھگا کے بھی لے گیا۔ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کیا ہمارا ملک بھی اتنا کمزور ہے اور یہاں کے قانون کیا ہیں سر۔ سوری ضیاء ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔ بات جب ٹک یہاں کی تھی تو آپ پکڑ لیتے انکو۔
 کیا آپ اپنے بارے میں اب بولیں گے۔ ضیاء خاموش ہو گیا اوکے سر می استعفی دیتا ہوں۔ اور سوچا اب میں آزاد ہوں۔ صفا کےلئے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔
ضیاء نے فوری اگلی ٹکٹ کروا دی تھی ساتھ کچھ ساتھی جنکو وہ جانتا تھا انکو ساتھ ملا لیا۔ 
ایک بار پھر وہ ملایا جا رہے تھے اس بار ٹارگٹ کون بنے گا یہ وقت نے بتانا تھا۔ ہیلو باس ضیاء صاحب پہنچ گئے ہیں یہاں۔امجد کو بتایا جا رہا تھا۔ 
 اوکے ان پر نظر رکھنا کہاں رہتنے ہیں کہاں جاتے ہیں کیا کرتے ہیں سب کی رپورٹ ٹائم پر ملے مجہے۔ اوکے باس۔ امجد نے کال کاٹی نے ہدایت دے کر کال کٹ کر دی۔  
بہت جلدی ہے تمہیں ضیاء۔ کاش عقل سے کام لیتے جو اب رہی نئی مجہے لگتا ہے ۔امجد اب ضیاء کو سوچ رہا تھا۔ یکدم اسکو خیال آیا کے اسکو اپنے کاموں کا بھی پوچھنا ہے۔کسی دوسرے کو کال کی۔ 
کام کا کیا بنا۔ سر وہ قیمت جو کے مال کی پہلے مقرر ہوئی تھی اب زیادہ مانگ رہی ہے پارٹی۔
انکا علاج بھی کرتے ہیں۔ 
اتنے میں کال آیی۔ ہیلو یار بہت دن ہو گئے دکھا نہیں۔
 ہاں ملتے ہیں جلد۔ امجد بولا۔ ابھی بات کر رہا تھا کہ ایک لڑکی گوری سمارٹ سی آیی اور پیچھے سے لپٹ گی ہاے جان۔
 دور رہ کر بات نہیں ہو سکتی تم سے۔ میری دوستی کو عزت دو ورنہ اپنا کام کرو۔ 
اتنا غصہ آخر ہوا کیا ہے۔وہ حیران تھی اس کے ری ایکٹ پر ۔ 
کچھ نہیں امجد کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔ اٹھ کر چلا گیا۔ 
امجد اب گھر آ گیا۔
 میڈم کہاں ہیں۔آ کر فورا ماریہ کا پوچھا ۔ جی وہ روم میں ہیں  نوکر بولا۔
 کھانا کھایا میڈم نے؟  
۔ نہیں جی۔ 
اوکے کھانا لگواؤ اور میڈم کو بولو کھنے پر میں انکا ویٹ کر رہا ہوں۔ 
جی کہ کر اس نے ایک عورت کو کچھ کہا۔ امجد فریش ہونے چلا گیا روم میں۔ 
کچھ ٹائم بعد دونوں ٹیبل پر تھے۔ کیسا گزرا دن ماریہ کا منہ لٹکا ہوا تھا بہت بور ۔
امجد ہنس پڑا۔ 
 اچھا چلو پھر تھوڑی دیر تک گھومنے چلتے ہیں۔ 
سچ ماریہ خوش ہو گئی۔ 
اسکو ائیرپورٹ اور راستے سے اندازا یہ ملک پسند آیا تھا۔ ماریہ سوچ رہی تھی کیا پہنے کے ڈور نوک ہوا آ جایں۔ تیار ہوئی۔امجد نے پوچھا۔ 
  ابھی تو سمجھ نہیں آ رہی کیا پےپہنوں ماریہ کو الجھن ہو رہی تھی۔ 
۔اوکے شاپنگ بھی کر لیں گے پھر وارڈ روب کی جانب بڑھا۔
 ویٹ میں سلیکٹ کر دیتا ہوں۔
 بلیو كلر اور یہ ڈریس تم یہی پہنو۔ پندرہ منٹ میں آنا لیٹ ہو رہے ہیں۔ 
اوکے باس ماریہ ہنس کے واشروم گی۔ تیار ہو کر امجد کے سامنے آیی۔ 
اسکی نگاہوں نے سراہا۔
 میری جان لے کر رہو گی۔ مسکرا کر باہر گیا۔
 اب وہ ایک آعلیٰ ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ 
کیا منگوانا ہے۔امجد ماریہ سے پوچھ رہا تھا۔ 
 جو تمہیں اچھا لگے بول کر ماریہ آس پاس کھو گئی۔ اور وہ ماریہ میں۔ 
ہاۓ دوست کیسے ہو۔ دو مرد  امجد سے مل رہے تھے۔ پھر وہ ماریہ کی طرف متوجہ ھوے بیوٹیفل۔
یہ کون ہے یار سچ بتا بھابھی تو نہیں۔ یعنی تو نے جا کر شادی بھی کر لی وہ بھی بنا بآراتی ۔
ماریہ کا چہرہ شرم سے لال ہو رہا تھا۔ 
امجد کو شرمندگی ہوئی اسکی حالت سے۔ یہ فرینڈ ہے میری۔ یعنی گرل فرینڈ۔ 
امجد نے سر تھام لیا۔ نہیں بس فرینڈ۔
 ہم آپ دونوں کو جوائن کر لیں۔ ناچار ہاں ہو گئی۔ 
اب کھانا کھایا جا رہا تھا۔ ماریہ لگ ہی پیاری رہی تھی کے ایک کی نظر بار بار بھٹک کے اس کے چہرے پے پڑتی۔
ادھ کھانا چھوڑ کر  امجد نے ماریہ کا ہاتھ پکڑا۔ ہمیں شاپنگ پر جانا ہے کیری آن کہ کر لے گیا ساتھ۔ ماریہ چپ تھی۔ 
پردہ کو مد نظر رکھتے ہوے شاپنگ کی ماریہ نے پر امجد نے کافی ساری کروا دی۔ 
 واپس آ رہے تھے کہ کچھ آوارہ لڑکے کھڑے تھے۔ انہوں نے ماریہ کو دیکھا تو بولے۔ 
ہمیں بھی لفٹ کرا دو۔ امجد نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ آج احساس ہو رہا تھا اسکو عورت کا۔
 پہلے کبھی عورت کے ساتھ چلا بھی تو نہیں تھا دور رہتا۔ ماریہ گاڑھی میں جا کر بیٹھو۔ 
میں آتا ہوں وہ جانے لگی تو ایک نے اسکا بازو پکڑ لیا ایسے نہیں جانا۔ 
امجد کا منہ غصہ میں لال تھا۔ آگے بڑھا تو دوسرے نے دھکا دیا اور سب خباثت سے ہنسنے لگے۔ آج موج کریں گے۔ 
امجد اٹھا ماریہ کا ہاتھ چہڑایا اور دوڑ لگا دی ماریہ کے ساتھ۔ وہ سب دونوں کے پیچھے تھے۔  
امجد ماریہ کے ساتھ گلی سے گلی بھاگتا رہا۔ پھر انکو چکر دے کر ماریہ کو کار میں بٹھایا اور کار گھر کی طرف دوڑا دی فل سپیڈ سے۔
 گھر پہنچ کر ماریہ تم اندر جاؤ مجہے کام ہے بس آ رہا ہوں۔ 
گاڑھی کو واپس اسی راستے پر ڈال لیا۔ اور ان کے پاس جا کر کار روکی۔ 
باہر نکل کر انکی طرف بڑھا ہاں تو کیا کہ رہے تہے تم سب۔ اس کے بعد تو ان سب کی شامت آ گئی۔ وہ جانتے کب تھے امجد کو کہ وہ ایک فائٹر ہے۔ 
لڑائی کے دوران امجد کا دوست جو کہ واپس جا رہا تھا امجد کو دیکھ کر رک گیا۔ 
وہ جانتا تھا کے ان چھ لڑکوں کا مقابلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا امجد کے نزدیک۔ 
کسی کو مکا پڑ رہا تھا تو کسی کو لات۔ کچھ کے سر ٹکراے گئے۔  
کسی کو اچھال کر پھینکا جا رہا تھا۔ اب تو سب زخمی حالت میں لیٹے پڑے تھے۔ 
یار کمال ہو گیا۔ کتنا مزہ آتا ہے تجھے لڑھتا دیکھ کر ۔اسکا دوست ہنس کر بولا۔ 
ایک بات پر میں حیران ہوں تم  نے کبھی ان گلی کے آوارہ لڑکوں کو کبھی  اہمیت نہیں دی۔ تو  آج یہ سب کیا تھا ۔
بس چھوڑ یار 
جاتے ھوے امجد نے ان لڑکوں کو بولا عزت کرتے ہیں عورتوں کی۔ اپنی بہنوں کی طرح سمجھا کرو۔ 
یار کیوں دماغ کھپا رہا ہے۔
 جانتا بھی ہے کہ یہ یہاں کے ہیں۔ مسلمان نہیں۔ ان کے لئے یہ سب عام  ہے۔ چل کچھ پیتے ہیں۔
 میرے لئے کافی بول دو۔ 
جاتے ہی امجد بولا۔ 
اسکا دوست بھی پاکستانی تھا اس لئے وہ اپنی زبان میں بات کر رہے تھے جس کی سمجھ کسی کو بھی نہیں آ رہی تھی۔
 اسنے بھی کافی ہی کہی۔ اب ہمیں چلنا چاہیے بہت دیر ہو گئی ہے۔
 اسکا دوست وسیم حیرانی سے بولا یار پہلے کبھی ٹائم کا حساب نہیں رکھا تم نے۔ 
یار تھک گیا ہوں اس لئے۔
 امجد گھر آیا تو ماریہ صوفہ پر بیٹھی تھی۔ آپ کہاں چلے گئے تھے۔ بہت دیر کر دی۔ 
آپ سو جاتیں امجد کو برا لگ رہا تھا اسکی تکلیف کو دیکھ کر ۔
 آپ کے ساتھ یہاں ہوں کیسے سو جاتی یہ جانے بنا کے آپ خیریت سے گھر آ چکے یا نہیں۔ 
اوکے اب آپ آرام کرو۔ پھر اپنے کمرہ میں چلا گیا۔ 
ضیاء اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ 
کام کہاں سے شروع کریں مجہے سمجھ نہیں آ رہی۔ اجنبی ملک ہے کہاں کہاں جایں۔
 شک پر کسی  کو پکڑ بھی نہیں سکتے۔ کہیں سے تو شروع کرنا ہے۔ 
کلب پارٹیز۔ کسی نے کہا۔
 ذریعہ بن جائے گا کام کا۔ نکلتے ہیں۔ 
اس لڑکے کو ہم جانتے نہیں نہ نام کا پتہ نہ گھر کا۔اب اگلا مسلہ کھڑا تھا۔  
پہنچنا تو ہمیں اس تک ہے۔ اپنی بیوی کی قاتل کو میں نہیں چھوڑ سکتا کسی بھی حال میں۔
 مجہے ماریہ چاہیے ہر حال میں۔
 اوکے تو پھر گروپ کی صورت میں کام کریں گے۔ پک بھی نہیں ہے ہمارے پاس یار کیوں نہ سکیچ بنوایا جائے۔ دوسرے نے مشورہ دیا۔
 اسنے ای میل کی پاک میں اپنے ساتھی کو۔ اور سارا مواد دے کر سکیچ کا بولا۔ کل مل جائے گی پکا ۔ 
اب انکا اگلا کام اس پک کو دکھا کر اسکو ڈھونڈنا تھا۔ 
اگلا دن شروع ہوا تو کام کی ابتدا بھی ہو گئی۔ گروپ کی صورت میں وہ ہر اہم جگہ جا کر پک دکھا کے پوچہتے۔ 
اور ایک ہوٹل میں انکو سراغ مل بھی گیا۔ جتنا پتہ تھا انکو وہ بتا دیا۔
 ضیاء خوش ہو کر بولا شکر ہے کچھ آسان ہوا ہمارا کام۔ 
اب ماریہ کہاں تک بھاگو گی۔ تمہیں تو میں لے جاؤں گا اور پھانسی کے تختے پر  پہنچاؤں گا۔
کسی بھی حال میں تمہیں معاف نہیں کر سکتا۔
 اب کھیل شروع ہو چکا تھاغلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر9

ایئر ہوسٹسس نے کہا جہاز لینڈ کرنے والا ہے۔ ائیرپورٹ پر چہل پہل تھی۔ 
اتنی رونق لوگ آ جا رہے تھے۔ پرندوں کے گیت آسمان پر ہلکے بادل اور فرحت بخش تازگی۔ بہت پیرا موسم تھا کہ ماریہ کھو سی گئی۔
 مس ماریہ کیا یہیں روکنے کا ارادہ ہے امجد مسکرا کے پوچھ رہا تھا ماریہ کو شرمندگی کا احساس ہوا نہیں وہ میں موسم دیکھ رہی تھی۔
 امجد آگے بڑھ گیا۔ اجنبی ملک اجنبی شخص کے ساتھ تھی بھروسہ تھا تو خدا کا آسرا تھا اسے۔
 کچھ غلط نہیں ہوگا اسے امید تھی۔ 
گاڑھی آئ ہوئی تھی وہ دونوں بیٹھے کچھ ٹائم بعد وہ ایک عالی شان بنگلے کے سامنے موجود تھے۔
 یہ ہے میرا گھر اوہ سوری اب تو آپ بھی ساتھ ہیں تو ہمارا گھر۔ 
جی کہ کے ماریہ مسکرائی۔ شکر ہے آپ مسکرانا نہیں بھولیں ورنہ مجہے۔ ۔۔امجد نے پریشانی والا سٹائل اپنایا۔ 
ماریہ نے بے اختیار پوچھا مجہے کیا۔ امجد نے اسکی آنکھوں میں جھانکا اور بولا مجہے ڈر تھا اب ہر وقت گلے لگ کے رونا ہے آپ کے ساتھ۔
 امجد تھوڑا سا آگے ہوا ماریہ نے مسکرا کے کہا ہٹیں اب مجہے گھر بھی نہیں دکھاؤ گے آپ۔ 
ہاں کیوں نہیں تمہارا ہی تو ہے۔ ماریہ نے گھورا مطلب جب تک یہاں ہو۔ 
ماریہ نے گھر دیکھا بہت اچھا تھا ہر چیز سے ذوق اور نفاست نمایاں تھی۔ تھک گئی صوفہ پر بیٹھتے بولی۔ کافی پیتے ہیں۔امجد بولا 
 مجہے چاۓ پینی ہے  ۔اوکے تو پھر بس چاۓ۔ کچھ ٹائم خاموشی کے بعد بولتا ہی۔ 
 اوکے ماریہ اب جھجکنا بند۔
 آپ کو روم دکھا دوں آپ کا ۔پھر مجہے کام سے جانا ہے۔ جی کہ کر ماریہ اٹھ گئی۔ 
اپنا خیال رکھیے گا۔  
ضیاء نے اوپر بات کی تو افسران نے انکار کر دیا یہ کہ کر کہ فیملی نقصان ہر کسی کا ہوتا ہے ۔آپ کے ساتھ ہم کچھ افراد بھیج دیں وہ بھی بیرون صرف ایک عورت کی خاطر ۔
سر وہ مجرم ہے اسنے ایک مجرم کی مدد کی پھر اسکو بھگا کے بھی لے گیا۔ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کیا ہمارا ملک بھی اتنا کمزور ہے اور یہاں کے قانون کیا ہیں سر۔ سوری ضیاء ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔ بات جب ٹک یہاں کی تھی تو آپ پکڑ لیتے انکو۔
 کیا آپ اپنے بارے میں اب بولیں گے۔ ضیاء خاموش ہو گیا اوکے سر می استعفی دیتا ہوں۔ اور سوچا اب میں آزاد ہوں۔ صفا کےلئے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔
ضیاء نے فوری اگلی ٹکٹ کروا دی تھی ساتھ کچھ ساتھی جنکو وہ جانتا تھا انکو ساتھ ملا لیا۔ 
ایک بار پھر وہ ملایا جا رہے تھے اس بار ٹارگٹ کون بنے گا یہ وقت نے بتانا تھا۔ ہیلو باس ضیاء صاحب پہنچ گئے ہیں یہاں۔امجد کو بتایا جا رہا تھا۔ 
 اوکے ان پر نظر رکھنا کہاں رہتنے ہیں کہاں جاتے ہیں کیا کرتے ہیں سب کی رپورٹ ٹائم پر ملے مجہے۔ اوکے باس۔ امجد نے کال کاٹی نے ہدایت دے کر کال کٹ کر دی۔  
بہت جلدی ہے تمہیں ضیاء۔ کاش عقل سے کام لیتے جو اب رہی نئی مجہے لگتا ہے ۔امجد اب ضیاء کو سوچ رہا تھا۔ یکدم اسکو خیال آیا کے اسکو اپنے کاموں کا بھی پوچھنا ہے۔کسی دوسرے کو کال کی۔ 
کام کا کیا بنا۔ سر وہ قیمت جو کے مال کی پہلے مقرر ہوئی تھی اب زیادہ مانگ رہی ہے پارٹی۔
انکا علاج بھی کرتے ہیں۔ 
اتنے میں کال آیی۔ ہیلو یار بہت دن ہو گئے دکھا نہیں۔
 ہاں ملتے ہیں جلد۔ امجد بولا۔ ابھی بات کر رہا تھا کہ ایک لڑکی گوری سمارٹ سی آیی اور پیچھے سے لپٹ گی ہاے جان۔
 دور رہ کر بات نہیں ہو سکتی تم سے۔ میری دوستی کو عزت دو ورنہ اپنا کام کرو۔ 
اتنا غصہ آخر ہوا کیا ہے۔وہ حیران تھی اس کے ری ایکٹ پر ۔ 
کچھ نہیں امجد کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔ اٹھ کر چلا گیا۔ 
امجد اب گھر آ گیا۔
 میڈم کہاں ہیں۔آ کر فورا ماریہ کا پوچھا ۔ جی وہ روم میں ہیں  نوکر بولا۔
 کھانا کھایا میڈم نے؟  
۔ نہیں جی۔ 
اوکے کھانا لگواؤ اور میڈم کو بولو کھنے پر میں انکا ویٹ کر رہا ہوں۔ 
جی کہ کر اس نے ایک عورت کو کچھ کہا۔ امجد فریش ہونے چلا گیا روم میں۔ 
کچھ ٹائم بعد دونوں ٹیبل پر تھے۔ کیسا گزرا دن ماریہ کا منہ لٹکا ہوا تھا بہت بور ۔
امجد ہنس پڑا۔ 
 اچھا چلو پھر تھوڑی دیر تک گھومنے چلتے ہیں۔ 
سچ ماریہ خوش ہو گئی۔ 
اسکو ائیرپورٹ اور راستے سے اندازا یہ ملک پسند آیا تھا۔ ماریہ سوچ رہی تھی کیا پہنے کے ڈور نوک ہوا آ جایں۔ تیار ہوئی۔امجد نے پوچھا۔ 
  ابھی تو سمجھ نہیں آ رہی کیا پےپہنوں ماریہ کو الجھن ہو رہی تھی۔ 
۔اوکے شاپنگ بھی کر لیں گے پھر وارڈ روب کی جانب بڑھا۔
 ویٹ میں سلیکٹ کر دیتا ہوں۔
 بلیو كلر اور یہ ڈریس تم یہی پہنو۔ پندرہ منٹ میں آنا لیٹ ہو رہے ہیں۔ 
اوکے باس ماریہ ہنس کے واشروم گی۔ تیار ہو کر امجد کے سامنے آیی۔ 
اسکی نگاہوں نے سراہا۔
 میری جان لے کر رہو گی۔ مسکرا کر باہر گیا۔
 اب وہ ایک آعلیٰ ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ 
کیا منگوانا ہے۔امجد ماریہ سے پوچھ رہا تھا۔ 
 جو تمہیں اچھا لگے بول کر ماریہ آس پاس کھو گئی۔ اور وہ ماریہ میں۔ 
ہاۓ دوست کیسے ہو۔ دو مرد  امجد سے مل رہے تھے۔ پھر وہ ماریہ کی طرف متوجہ ھوے بیوٹیفل۔
یہ کون ہے یار سچ بتا بھابھی تو نہیں۔ یعنی تو نے جا کر شادی بھی کر لی وہ بھی بنا بآراتی ۔
ماریہ کا چہرہ شرم سے لال ہو رہا تھا۔ 
امجد کو شرمندگی ہوئی اسکی حالت سے۔ یہ فرینڈ ہے میری۔ یعنی گرل فرینڈ۔ 
امجد نے سر تھام لیا۔ نہیں بس فرینڈ۔
 ہم آپ دونوں کو جوائن کر لیں۔ ناچار ہاں ہو گئی۔ 
اب کھانا کھایا جا رہا تھا۔ ماریہ لگ ہی پیاری رہی تھی کے ایک کی نظر بار بار بھٹک کے اس کے چہرے پے پڑتی۔
ادھ کھانا چھوڑ کر  امجد نے ماریہ کا ہاتھ پکڑا۔ ہمیں شاپنگ پر جانا ہے کیری آن کہ کر لے گیا ساتھ۔ ماریہ چپ تھی۔ 
پردہ کو مد نظر رکھتے ہوے شاپنگ کی ماریہ نے پر امجد نے کافی ساری کروا دی۔ 
 واپس آ رہے تھے کہ کچھ آوارہ لڑکے کھڑے تھے۔ انہوں نے ماریہ کو دیکھا تو بولے۔ 
ہمیں بھی لفٹ کرا دو۔ امجد نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ آج احساس ہو رہا تھا اسکو عورت کا۔
 پہلے کبھی عورت کے ساتھ چلا بھی تو نہیں تھا دور رہتا۔ ماریہ گاڑھی میں جا کر بیٹھو۔ 
میں آتا ہوں وہ جانے لگی تو ایک نے اسکا بازو پکڑ لیا ایسے نہیں جانا۔ 
امجد کا منہ غصہ میں لال تھا۔ آگے بڑھا تو دوسرے نے دھکا دیا اور سب خباثت سے ہنسنے لگے۔ آج موج کریں گے۔ 
امجد اٹھا ماریہ کا ہاتھ چہڑایا اور دوڑ لگا دی ماریہ کے ساتھ۔ وہ سب دونوں کے پیچھے تھے۔  
امجد ماریہ کے ساتھ گلی سے گلی بھاگتا رہا۔ پھر انکو چکر دے کر ماریہ کو کار میں بٹھایا اور کار گھر کی طرف دوڑا دی فل سپیڈ سے۔
 گھر پہنچ کر ماریہ تم اندر جاؤ مجہے کام ہے بس آ رہا ہوں۔ 
گاڑھی کو واپس اسی راستے پر ڈال لیا۔ اور ان کے پاس جا کر کار روکی۔ 
باہر نکل کر انکی طرف بڑھا ہاں تو کیا کہ رہے تہے تم سب۔ اس کے بعد تو ان سب کی شامت آ گئی۔ وہ جانتے کب تھے امجد کو کہ وہ ایک فائٹر ہے۔ 
لڑائی کے دوران امجد کا دوست جو کہ واپس جا رہا تھا امجد کو دیکھ کر رک گیا۔ 
وہ جانتا تھا کے ان چھ لڑکوں کا مقابلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا امجد کے نزدیک۔ 
کسی کو مکا پڑ رہا تھا تو کسی کو لات۔ کچھ کے سر ٹکراے گئے۔  
کسی کو اچھال کر پھینکا جا رہا تھا۔ اب تو سب زخمی حالت میں لیٹے پڑے تھے۔ 
یار کمال ہو گیا۔ کتنا مزہ آتا ہے تجھے لڑھتا دیکھ کر ۔اسکا دوست ہنس کر بولا۔ 
ایک بات پر میں حیران ہوں تم  نے کبھی ان گلی کے آوارہ لڑکوں کو کبھی  اہمیت نہیں دی۔ تو  آج یہ سب کیا تھا ۔
بس چھوڑ یار 
جاتے ھوے امجد نے ان لڑکوں کو بولا عزت کرتے ہیں عورتوں کی۔ اپنی بہنوں کی طرح سمجھا کرو۔ 
یار کیوں دماغ کھپا رہا ہے۔
 جانتا بھی ہے کہ یہ یہاں کے ہیں۔ مسلمان نہیں۔ ان کے لئے یہ سب عام  ہے۔ چل کچھ پیتے ہیں۔
 میرے لئے کافی بول دو۔ 
جاتے ہی امجد بولا۔ 
اسکا دوست بھی پاکستانی تھا اس لئے وہ اپنی زبان میں بات کر رہے تھے جس کی سمجھ کسی کو بھی نہیں آ رہی تھی۔
 اسنے بھی کافی ہی کہی۔ اب ہمیں چلنا چاہیے بہت دیر ہو گئی ہے۔
 اسکا دوست وسیم حیرانی سے بولا یار پہلے کبھی ٹائم کا حساب نہیں رکھا تم نے۔ 
یار تھک گیا ہوں اس لئے۔
 امجد گھر آیا تو ماریہ صوفہ پر بیٹھی تھی۔ آپ کہاں چلے گئے تھے۔ بہت دیر کر دی۔ 
آپ سو جاتیں امجد کو برا لگ رہا تھا اسکی تکلیف کو دیکھ کر ۔
 آپ کے ساتھ یہاں ہوں کیسے سو جاتی یہ جانے بنا کے آپ خیریت سے گھر آ چکے یا نہیں۔ 
اوکے اب آپ آرام کرو۔ پھر اپنے کمرہ میں چلا گیا۔ 
ضیاء اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ 
کام کہاں سے شروع کریں مجہے سمجھ نہیں آ رہی۔ اجنبی ملک ہے کہاں کہاں جایں۔
 شک پر کسی  کو پکڑ بھی نہیں سکتے۔ کہیں سے تو شروع کرنا ہے۔ 
کلب پارٹیز۔ کسی نے کہا۔
 ذریعہ بن جائے گا کام کا۔ نکلتے ہیں۔ 
اس لڑکے کو ہم جانتے نہیں نہ نام کا پتہ نہ گھر کا۔اب اگلا مسلہ کھڑا تھا۔  
پہنچنا تو ہمیں اس تک ہے۔ اپنی بیوی کی قاتل کو میں نہیں چھوڑ سکتا کسی بھی حال میں۔
 مجہے ماریہ چاہیے ہر حال میں۔
 اوکے تو پھر گروپ کی صورت میں کام کریں گے۔ پک بھی نہیں ہے ہمارے پاس یار کیوں نہ سکیچ بنوایا جائے۔ دوسرے نے مشورہ دیا۔
 اسنے ای میل کی پاک میں اپنے ساتھی کو۔ اور سارا مواد دے کر سکیچ کا بولا۔ کل مل جائے گی پکا ۔ 
اب انکا اگلا کام اس پک کو دکھا کر اسکو ڈھونڈنا تھا۔ 
اگلا دن شروع ہوا تو کام کی ابتدا بھی ہو گئی۔ گروپ کی صورت میں وہ ہر اہم جگہ جا کر پک دکھا کے پوچہتے۔ 
اور ایک ہوٹل میں انکو سراغ مل بھی گیا۔ جتنا پتہ تھا انکو وہ بتا دیا۔
 ضیاء خوش ہو کر بولا شکر ہے کچھ آسان ہوا ہمارا کام۔ 
اب ماریہ کہاں تک بھاگو گی۔ تمہیں تو میں لے جاؤں گا اور پھانسی کے تختے پر  پہنچاؤں گا۔
کسی بھی حال میں تمہیں معاف نہیں کر سکتا۔
 اب کھیل شروع ہو چکا تھا

   0
0 Comments